* کیا ہواؤں نے اس درجہ تار تار مجھے *
کیا ہواؤں نے اس درجہ تار تار مجھے
مٹا نہ دے کہیں عالم سے انتشار مجھے
میں صرف سچ ہی نہ ہوتا تو کیا بگڑ جاتا
بلا ہی لیتا ہے جب تب ستونِ دار مجھے
یہ کیسا دور ہے، کیسی سیاستیں اس کی
گناہ خود وہ کرے اور سنگسار مجھے
یہ عاجزی تو پرانی رتوں کا تحفہ تھی
نئے زمانے میں لے ڈوبا انکسار مجھے
میں اس کے ظلم کا اس کو حساب دکھلاؤں
نہیں ہے خود پ اب اتنا بھی اختیار مجھے
زمین ہے کہ مرے پاؤں چھوڑتی ہی نہیں
بلا رہی ہیں صدائیں افق کے پار مجھے
میں اپنے آپ کو بھولا کچھ اس طرح آزرؔ
فلک بھی کہنے لگا ہے زمیں پہ بار مجھے
**** |