* فسانہ جو مری توقیر کا بتاتا ہے *
فسانہ جو مری توقیر کا بتاتا ہے
کمال اِسے مری شمشیر کا بتاتا ہے
مرے حقوق کو پامال کرنے والا بھی
قصور سب مری تقدیر کا بتاتا ہے
جہاں قیامتِ صغریٰ گزرتی ہے ہم پر
زمانہ عدل جہانگیر کا بتاتا ہے
ہے جس کا نام زمانہ میں عشق ، یہ دل بھی
مرید خود کو اسی پیر کا بتاتا ہے
دلِ عزیز پہ دعوا ہے آج تک اس کا
سو اِس کو مسئلہ کشمیر کا بتاتا ہے
ہر ایک ملک میں تخریب کاریاں جس کی
وہ سلسلہ انھیں تعمیر کا بتاتا ہے
میں جب بھی درد کو لفظوں کا روپ دیتا ہوں
زمانہ شعر اسے میر ؔ کا بتاتا ہے
تخیلا ت کا شاعر نہیں فقط آزرؔ
وہ خواب بھی نئی تعبیر کا بتاتا ہے
|