غزل
ڈاکٹر فریاد آزرؔ
جب ذہن ڈھونڈتا رہا فن کی جمالیات
دل کو لبھا رہی تھی بدن کی جمالیات
جی ذرق برق کپڑوں سے اس کا اچٹ گیا
آنکھوں میں بس گئی تھی کفن کی جمالیات
کیا اٹھیں صبح ، دیر سے سوتے ہیں اہلِ شہر
دیکھی کبھی نہ پہلی کرن کی جمالیات
صحرائے شہر میں کبھی اس کا نہ جی لگا
بن باس لے اڑی اسے بن کی جمالیات
پردیس کے نظارے بہت خوب تھے مگر
ہر لمحہ یاد آئی وطن کی جمالیات
سچ بولنے کا شوق جو حد سے گزر گیا
خود ڈھونڈ لے گی دار و رسن کی جمالیات
وہ عشق موجزن تھا، دوئی ایک ہو گئی
رادھا میں بس چکی تھی کشن کی جمالیات
*********