دل نے اچھائی، برائی کو بس اتنا سمجھا
یعنی گر خود کو برا سمجھا تو اچھا سمجھا
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
اب سمندر پہ وہ چلتا ہے تو حیرت کیسی
عمر بھر اس نے سرابوں کو ہی دریا سمجھا
آیا سیلاب تو سمجھا کہ زمیں پیاسی ہے
زلزلہ آیا تو میں نے ترا غصہ سمجھا
اب تو وہ آگ ہیولوں سے بھی آگے ہے بہت
تو نے انساں کو فقط خاک کا پتلا سمجھا
قصہء درد سنا سب نے مرا ، سچ ہے مگر
یہ بھی سچ ہے کہ سبھی نے اسے قصہ سمجھا
مات دی میں نے جو شیطاں کو بھی عیاری میں
پھر مجھے سارے زمانے نے فرشتہ سمجھا
عمر بھر خامہء تنقید نے مانا مردہ
بعد از مرگ مجھے اس نے بھی زندہ سمجھا
جب مرے خواب حقیقت میں نہ بدلے آزرؔ
میں نے دنیا کی حقیقت کو بھی سپنا سمجھا
****************