* وہ ایک خواب کی صورت ہوا تھا حائلِ ش *
وہ ایک خواب کی صورت ہوا تھا حائلِ شب
پھر اپنے آپ سلجھتے گئے مسائلِ شب
ہم اہلِ شہر کی آنکھیں نہ دیکھ پائیں کبھی
طلوعِ صبح کی باہوں میں حسنِ زائلِ شب
اگرچہ صبح ضرورت تھی وقت کی لیکن
زمانہ غور سے سنتا رہا دلائلِ شب
کسی کے اشک کسی کو نظرنہیں آتے
کہیں کہیں بڑے اچھے لگے شمائلِ شب
قصیدے رات بھی پڑھتی ہے دن کے مصلحتاً
بیان کرتا ہے دن بھی کبھی فضائلِ شب
ہے چاند، رات کے ماتھے کا خوبرو جھومر
ستارے کیا ہیں کہ گویا کوئی حمائلِ شب
نہ جانے کیسے اجالے سے آنکھ ٹکرائی
نگاہ ہونے لگی خود بخود ہی مائلِ شب
تمام رات یوں ہی جاگتی رہیں آنکھیں
خیال آیا تھا اپنا دمِ اوائل ِ شب
**************************** |