دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہے
ذہن کو کیسے میں سمجھاؤں کہ سب جانتا ہے
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا۔!
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
وہ یہاں ندیاں بہا سکتا ہے لیکن خوں کی
اُس کو ہر رنگ میں صحرائے عرب جانتا ہے
بے بسی سے مِری، بے حِس نہ سمجھ لینا مجھے
دل میں وہ لاوا اُبلتا ہے کہ رب جانتا ہے
شاخ ہلنے پہ بھی کوئی نہ اُڑا پیڑوں سے
وہ پرندوں سے ملاقات کے ڈھب جانتا ہے
ہم نے نقاد کی اس درجہ پذیرائی کی
آج وہ خود کو مسیحائے ادب جانتا ہے
****************