جبیں پر جس کے میرا نام ہے وہ گھر نہیں پایا
مری آنکھوں نے اب تک خواب کا منظر نہیں پایا
سبھی کو زہر اپنے اپنے حصے کا پڑا پینا
نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا
شگفتہ جسم سے اُس نے بجھا لی پیاس اندھیرے میں
جب اس کا ہاتھ شانے تک گیا تو سر نہیں پایا
ابھی سے جانے کیوں شاہین گھبرانے لگا مجھ سے
مری پرواز نے اب تک کوئی شہپر نہیں پایا
تمہاری بے حسی سے روٹھ کر سوچا تھا مر جاؤں
میں شرمندہ بہت ہوں شاید اب تک مر نہیں پایا
بہت اکتا کے آیا تھا وہ خالی پن سے اندر کے
جو دیکھا غور سے اس نے تو کچھ باہر نہیں پایا
وگرنہ تم مرے ہمدردوں میں شامل نہیں ہوتے
تمہارے ہاتھ نے شاید کوئی پتھر نہیں پایا
یہاں کے پتھروں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے
تمہارے شہر نے شاید کوئی آزرؔ نہیں پایا
*****************