(پاکستانی ادب دوست سفارت کار محبوبؔ ظفر کی ہندوستان سے رخصتی پر)
اب نگاہوں سے شفق منظر جدا ہونے کو ہے
شانۂ جاں سے ہمارے، سر جدا ہونے کو ہے
پھر ہمارے شہر پر آنے کو ہے شاید عذاب
امن کا اک اور پیغمبر جدا ہونے کو ہے
اب تمازت دھوپ فوجوں کی جلا دے گی ہمیں
سبز سایوں کا حسیں لشکر جدا ہونے کو ہے
اب تو بس اپنے بدن ہی میں رہیں گے قید ہم
اب فصیلِ دوستاں سے در جدا ہونے کو ہے
ذوقؔ اب دلّی کی گلیوں میں بھلا رکّھا ہے کیا
شہر سے وہ دلربا پیکر جدا ہونے کو ہے
جو دلوں میں گھر بنا لیتا ہے بس اک آن میں
ہم سے اب وہ شوخ جادوگر جدا ہونے کو ہے
کس قدر گم سم ہیں آزرؔ ساری شاخیں اور طیور
اک پرندہ پیڑ سے اڑ کر جدا ہونے کو ہے
*************