اُس سے نالاں تھے ’’فرشتے‘‘ وہ خفا کس سے تھا
اختلاف اس کا خداؤں کے سوا کس سے تھا
یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ
یا د آیا نہیں دروازہ کھلا کس سے تھا
میرے بارے میں بڑی رائے غلط تھی اُس کی
جانے وہ میرے تصور میں ملا کس سے تھا
جانے تا عمر اُسے کس نے اکیلا رکھا
جانے اس شخص کا پیمانِ وفا کس سے تھا
وہ اگر دور تھا مجھ سے، تو تھی قربت کس سے
وہ مرے پاس اگر تھا تو جدا کس سے تھا
لاکھ شکوہ ہو سماعت کو صدا سے آزرؔ
روکتا کو ن کسے، کوئی رُکا کس سے تھا
***************