کہیں لب پہ دعاؤں کا اجارہ ہو نہ جائے
مجھے ڈر ہے علامت استعارہ ہو نہ جائے
فضاؤں میں دھوئیں کے گیند کھیلے جا رہے ہیں
اسی بازی میں گم ماحول سارا ہو نہ جائے
وگرنہ جنگ کا یہ لطف بھی جاتا رہے گا
اِکائی دشمنوں کی پارہ پارہ ہو نہ جائے
ابھی تو دیکھنا ہے سارا پس منظر خلا کا
نگاہِ جستجو صرفِ نظارہ ہو نہ جائے
وہی اک بات جو اس کو بتانا چاہتا ہوں
وہی اک بات اس پر آشکارا ہو نہ جائے
اجل کا سامنا تو کیسے کر پائے گا آزرؔ
تجھے یہ زندگی یوں ہی گوارہ ہو نہ جائے
***************