حسین شہر کا منظر اُسے بلاتا رہا
مگر وہ شخص ہرے جنگلوں میں کھویا رہا
وہ باڑھ آئی کہ بہنے لگا مرا چھپر
میں جس پہ بیٹھا مناظر کا لطف لیتا رہا
گزشتہ دور کی بو باس لے کے آئی تھی
میں رات سبز ہوا سے لپٹ کے روتا رہا
یہ سوچ کر کہ کبھی فاختہ تو آئے گی
وہ گِدّھ شاخ پہ زیتون کی ہی بیٹھا رہا
پکارے گا ہی کوئی سنگِ نا تراشیدہ
اسی امید پہ آزرؔ ہمیشہ تنہا رہا
*******************