نہ روک پائی مری آستین کی خوشبو
اسے بھی لے گئی بہلا کے بین کی خوشبو
گلاب اگے تھے مرے شہر کے ہر آنگن میں
مگر فضا میں تھی رقصاں مشین کی خوشبو
مرے وجود کا مجھ کو دلا گئی احساس
مرے گمان سے لپٹی یقین کی خوشبو
نہ جانے کون سی مٹی پڑی تھی گملوں میں
گلاب دینے لگے یاسمین کی خوشبو
میں آسمان پہ پہنچا مگر ستانے لگی
مرے وجود سے لپٹی زمین کی خوشبو
بس ایک آن میں سارے جہاں میں پھیل گئی
بتوں کے شہر سے اٹّھی جو دین کی خوشبو
**************