بتوں کے شہر میں ایمان لے کے آئی تھی
وہ حسنِ سورۂ رحمن لے کے آئی تھی
بڑا عجیب تھا مصنوعی موسموں کا سفر
بہار کاغذی گلدان لے کے آئی تھی
گئی تو پھر نہ ملا بیسویں صدی کا سراغ
نیا زمانہ، نئی شان لے کے آئی تھی
یہ اور بات ہمیں کم شناس تھے ورنہ
وہ ایک عہد کی پہچان لے کے آئی تھی
کل اُس سے عہدِ وفا میں ہی لے نہیں پایا
وہ اپنے ہاتھوں میں قرآن لے کے آئی تھی
پھر اس کے بعد بنی شاہکارِ آزرؔ وہ
جو اپنے جسم کی چٹان لے کے آئی تھی
*************