شعور ِقوم نے پہنی ہوئی ہیں زنجیریں
سجیں ایوان میں پھر سے پرانی تصویریں
رئیسِ دیس کو دہشت گری کا حق حاصل
غریب ِدیس کو لکھ دی گئی ہیں تعزیریں
صدائے حق کا مسافر ہے بوجھ ذہنوں پر
گرے گی لاش کہاں سوچتے ہیں تدبیریں
شب ِسیاہ میں دیکھیں ،وہ ہیں کہاں روشن
لہو کی آگ میں دیکھی نہیں وہ تنویریں
ضمیر بِک گئے اپنے بھی چند پیسوں میں
ہوئی ہیں کُند قلم کی ہماری شمشیریں
گلاور کچھ نہیں سرمایہ ¿حیات مرا
ادھورے خواب ہیں اور کچھ ادھوری تعبیریں
............
گل بخشالوی
******************