برہنہ پیڑوں کے پتے تلاش کرتا ہوں
گئی بہار کے خاکے تلاش کرتاہوں
غموں کی بحر میں تنکے کا آسرالے کر
میں حسرتوں کے کنارے تلاش کرتاہوں
جہاں لُٹا تھا کبھی قافلہ محبت کا
اُسی نگر میں وہ رستے تلاش کرتاہوں
مہک رہی ہے فضا آج جن کی خوشبو سے
میں کربلا کے وہ غنچے تلاش کرتاہوں
کہاں گئی وہ محبت ،کہاں گئے وہ لوگ
گئی رُتوں کے اثاثے تلاش کرتاہوں
وہ جن کو دیکھ کے گل کو سکون ملتا تھا
بہت دنوں سے وہ چہرے تلاش کرتاہوں
گل بخشالوی............
************************