حالات حاضرہ
میں جیون میں سنورنا چاہتا ہوں
میں کب حد سے گزرنا چاہتا ہوں
دھماکوں سے اڑوں ٹکڑوں میں شاید
بدن پر نام لکھنا چاہتا ہوں
نظام اپنا بدلتا ہی نہیں جب
میں چہرے کیوں بدلنا چاہتا ہوں
وڈیروں کو نظر چہرہ تو آے
میں آءینہ دیکھانا چاہتا ہوں
مجھے مغرب زدوں کی کیا ضرورت
میں پاکستان بننا چاہتا ہوں
مری میت میں چہرہ ہو مرا گل
میں ایسی موت مرنا چاہتا ہوں
گل بخشالوی