امن کی آشا
تم اُدھر پریشاں ہو
ہم اِدھر پریشاں ہیں
کب تلک سہیں گے ہم
جسم وجاں کے زخموں کو
لیڈروں کی چاہت میں
سوچتے رہےں گے ہم
مذہبی عقیدوں میں
انتہاءپسندوں نے
قتل کردئےے ہم سے
دیس کے دُلارے گل
خون تھا جو گلیوں میں
رقص تھا جو لاشوں پر
کل جو ہم نے دیکھے تھے
آج بھی ہیں وہ منظر
کاش ! جان لیتے ہم
مغربی رزیلوں کو
عقل پوچھتی ہے گل
کیسا لگ رہا ہے آج
تم کو شوقِ آزادی
ہم کو شوق جنت کا
آؤ جان لیتے ہیں
اک خدا کے ہم بندے
دوستی محبت میں
زندگی کی شادابی
ہم ادیبووشاعر سب
اس قدر تو جانیں ہیں
چاہتوں کے مذہب میں
سرحدیں نہیں ہوتیں
ہے لکیر سرحد کی
مٹ تو اب نہیں سکتی
سرحدیں بھلاکر ہم
آؤ دوستی کرلیں
تم اُدھر پریشاں ہو
ہم اِدھر پریشاں ہیں
گل بخشالوی
0302-5892786
چیف ایڈیٹر کھاریاں گزٹ
****************