غزل
غم بھلانے کے لئے ہم آج گلشن میں گئے
نالے سن کر بلبلوں کر دیر تک روتے رہے
اس حیاتِ مختصر کی داستاں کتنی طویل
چار دن کی زندگی میں درد صدیوں کے سہے
چاروں جانب مشکلوں اور آفتوں کا اک ہجوم
یہ بھی کوئی زندگی ہے جینے کو گو ہم جئے
جب کسی کو ہم نے دیکھا مبتلائے درد و غم
سرد آہیں دل سے نکلیں اشک آنکھوں سے بہے
روز و شب اپنے ہی غم میں وہ اگر غلطاں رہے
درد اپنا کوئی کیوںکر اپنے ہمدم سے کہے
شادمانی کی جھلک آئے کہاں سے شعر میں
زندگی شاعر کی اپنی کلفتوں میں جب کٹے
ہدایت اللہ شاہ