غزل
گدا گروں کی طرح خاک پر پڑا ہوا ہوں
تمہاری دید کی ضد ہے سو میں اڑا ہوا ہوں
وہ خستگی کا ہے عالم تمہیں بتاؤں کیا
کھڑا ہوا ہوں پہ لگتا نہیں کھڑا ہوا ہوں
میں خود سے ملنے بھی آتا ہوں اب تو چُھپ چُھپ کر
زمانے، ہائے میں خودسے بہت لڑا ہوا ہوں
سکون اب بھی مجھے ماں کی گود میں آئے
ہُمک رہا ہوں میں اب تک، کہاں بڑا ہوا ہوں
یہ تُو تڑاک جو کرتے ہو ،ہے لحاظ مجھے
وگرنہ زندہ ہوں، سمجھو نہ میں گڑا ہوا ہوں
تمہاری وعدہ خلافی کا یہ کرشمہ ہے
تھی موم جیسی طبیعت پہ اب کڑا ہوا ہوں
عظیمؔ ان سے محبت کا پوچھتے کیا ہو
نگینہ جیسے جڑا ہو سو میں جڑا ہوا ہوں
**********************