* کیا آتشِ اُلفت ہے بیاں ہو نہیں سکت *
کیا آتشِ اُلفت ہے بیاں ہو نہیں سکتا
ہو جائیں گے ہم راکھ دھواں ہو نہیں سکتا
مٹھّی میں بھلا قید ہوئی ہے کبھی خوش بو
یہ رازِ محبّت ہے نہاں ہو نہیں سکتا
ٹوٹا ہے فلک یا کہیں ٹوٹا ہے کوئی دل
یونہی تو کہیں شورِ فغاں ہو نہیں سکتا
ملتے نہیں خوش بو بھرے خوش رنگ سے الفاظ
لفظوں میں تِرا روپ بیاں ہو نہیں سکتا
قسمت ہی سے بنتا ہے کوئی شاعر و فنکار
ہر شخص سے یہ کارِ گراں ہو نہیں سکتا
گھر کر گئے دل میں وہ کچھ اِس طرح سے راغبؔ
خالی کبھی اب دل کا مکاں ہو نہیں سکتا
***************88 |