donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Iftekhar Raghib
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* سامنے آگئی اِک روز یہ سچّائی بھی *

سامنے آگئی اِک روز یہ سچّائی بھی
دشمنِ جاں یہ سماعت بھی ہے بینائی بھی

پیکرِ شعر میں ہر جذبہ نہیں ڈھل پاتا
کچھ نئے لفظ دے یا چھین لے گویائی بھی

حسبِ معمول تجھے دیکھ کے دل شاد ہُوا
خواب ٹوٹا تو طبیعت مِری گھبرائی بھی

کس قدر خوف تمھیں تھا مِری بے تابی سے
دیکھ لی تم نے مِرے دل کی شکیبائی بھی

خود کو کرتی رہی قربان درختوں پہ ہَوا
سبز شاخوں کو کبھی توڑ کے اِترائی بھی

کم نہیں بے کس و مفلس کی مدد سے راغبؔؔ
پیڑ  پودوں  کی  نگہ داشت  بھی  سینچائی  بھی

*****************

درمیاں ابر کے ہیں آب سے نا واقف ہیں
ہم کہ بے مہریِ احباب سے نا واقف ہیں

ایسے پودے ہیں کہ واقف نہیں شادابی سے
ایسی ندیاں ہیں کہ سیلاب سے نا واقف ہیں

ایسے بھی گُل ہیں جو واقف نہیں رنگ و بو سے
ایسی آنکھیں بھی ہیں جو خواب سے نا واقف ہیں

جسم کو اپنے سمجھتے ہیں حسیں تاج محل
اور وہ بارشِ تیزاب سے نا واقف ہیں

کم نہیں زعم اُنھیں اپنی سخن دانی کا
گفتگو کے بھی جو آداب سے نا واقف ہیں

جب سے دیکھا ہے تصوّر میں تمھارا چہرہ
ایسا لگتا ہے کہ مہتاب سے نا واقف ہیں

اُن کو اندازہ ہو کیسے مِری غرقابی کا
جو تِری آنکھوں کے گرداب سے نا واقف ہیں

چوٹ لگتی ہے تو اب درد کہاں ہوتا ہے
رنج ہوتا ہے کہ احباب سے نا واقف ہیں

اس کی آغوش میں پلتی ہے ہماری عقبیٰ
آپ جس عالمِ اسباب سے نا واقف ہیں

سادہ لوحی ہے کہ بے مہری کہاں کھُلتا ہے
دل میں رہ کر دلِ بے تاب سے نا واقف ہیں

کچھ تقاضا بھی ہے حالات کا ایسا اے دل
’’کچھ تو ہم رونے کے آداب سے نا واقف ہیں‘‘

اُن کا چہرہ ہے پُر اسرار صحیفہ راغبؔؔ
حفظ ہم کر کے بھی ہر باب سے نا واقف ہیں

*******************

زندگی تجھ کو یہ سوجھی ہے شرارت کیسی
دیکھ گزری ہے مِرے دل پہ قیامت کیسی

اپنے پتّوں سے درختوں کو شکایت کیسی
’’ساتھ جب چھوڑ دیا ہے تو وضاحت کیسی‘‘

مجھ سے مت پوچھ مِری جان مِرے دل سے پوچھ
میں نے فرقت میں اُٹھائی ہے اذیّت کیسی

کوئی کب تک کرے برداشت، زباں بند رکھے
ہو گئی ہے گل و گل زار کی حالت کیسی

درد  خوش بو  سے  معطّر  ہے  مِری  دل دنیا
تیری الفت نے بدل دی مِری قسمت کیسی


دوڑتے پھرتے ہیں صحرا میں بگولوں کی طرح
کیا بتائیں کہ ہماری ہے طبیعت کیسی

لوگ ظاہر پہ بھی کر لیں گے بھروسا پھر بھی
دیکھ لیں آپ کہ ہے آپ کی نیّت کیسی

میں نے کب مانگا ہے تجھ سے تِری چاہت کا ثبوت
گر محبّت نہیں مجھ سے تو شکایت کیسی

جی رہا ہوں تِری یادوں کے سہارے لیکن
رفتہ رفتہ مِری اب ہوگئی حالت کیسی

ہوتی ہی رہتی ہے اشعار کی بارش راغبؔؔ
موسمِ ہجر کی مجھ پر ہے عنایت کیسی

***************

تیری خوش بو مِرے شعروں میں بسا کرتی ہے
شاعری قرض محبت کا ادا کرتی ہے

سو جتن کر کے سن￿بھالوں گا وفائیں تیری
سان￿س کی ڈور جہاں تک بھی وفا کرتی ہے

بھول جاتا ہوں میں سب اپنی ضروت مندی
تیری چاہت مجھے مجھ سے بھی جدا کرتی ہے

جب کبھی دل سے تجھے یاد کیا کرتا ہوں
’’میرے سینے میں کوئی سان￿س چبھا کرتی ہے‘‘

ایک وحشت ہے کہ جینے نہیں دیتی راغبؔؔ
اِک محبت ہے کہ جینے کی دعا کرتی ہے

******************

ڈالر و درہم و دینار سے مل جاتے ہیں
اب  تو  غم خوار  بھی  بازار  سے  مل  جاتے  ہیں

وہ سمجھتے ہیں بہت تیز کھلاڑی خود کو
جن  کو  رستے  بڑے  ہم وار  سے  مل  جاتے  ہیں

وجۂ افسردگیِ دیدہ و دل مت پوچھو
سو بہانے مجھے اخبار سے مل جاتے ہیں

نامہ  بر  اپنا  بلا  کا  ہے  سبک گام  کہ  اب
خط ہمیں برق کی رفتار سے مل جاتے ہیں

جذبۂ شعر و سخن سوزِ محبت کے طفیل
حوصلے گرمیِ افکار سے مل جاتے ہیں

سارے احوال سنا دیتی ہیں آنکھیں راغبؔؔ
بھید سب چہرہ و رُخسار سے مل جاتے ہیں

**************

بیان کرنے کی طاقت نہیں ہنر بھی نہیں
نہیں طویل یہ قصّہ تو مختصر بھی نہیں

ہمارے ہاتھوں وہ ہم کو تباہ کرتے ہیں
یہ اور بات کہ اس کی ہمیں خبر بھی نہیں

ہر اِک یقین کی بنیاد شک پہ رکھتا ہے
سو اعتماد اُسے اپنے آپ پر بھی نہیں

نہ جانے اب بھی وہ برسا رہے ہیں پتھّر کیوں
ہماری شاخ پہ اب تو کوئی ثمر بھی نہیں

فساد و فتنہ ہے جن کی سرشت میں راغبؔؔ
سکوں سے بیٹھنے والے وہ اپنے گھر بھی نہیں

***************
 

 

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 355