* کس قدر سنسان ہو کر رہ گئے *
کس قدر سنسان ہو کر رہ گئے
ہجر میں ویران ہو کر رہ گئے
رہ گئے فرقت میں بھی زندہ مگر
مثلِ آتش دان ہو کر رہ گئے
جب سے خیمہ زن ہوئے پردیس میں
گھر پہ بھی مہمان ہو کر رہ گئے
بے حسی جب حد سے آگے بڑھ گئی
سب کے سب بے جان ہو کر رہ گئے
مل گیا ایماں وراثت میں ہمیں
صاحبِ ایمان ہو کر رہ گئے
آپ نے جب سے نگاہیں پھیر لیں
بے سر و سامان ہو کر رہ گئے
راست گوئی کے ہوئے تھے مرتکب
زینتِ زندان ہو کر رہ گئے
حد سے جب راغبؔ بڑھی پیچیدگی
ہم بڑے آسان ہو کر رہ گئے
************* |