اُس نے الفت کی یوں لگائی آگ
لگ گئی دل میں کیمیائی آگ
بچ کے رہنے میں ہی بھلائی ہے
آگ اپنی ہو یا پرائی آگ
تیز بارش، ہَوا، ٹھِٹھرتے دل
کچّی لکڑی، دِیا سلائی، آگ
ہو تخیّل میں اِک عصا روشن
دے کہیں دُور جب دکھائی آگ
دوڑ پڑتا ہوں آگ کے پیچھے
کر دے شاید کے رہ نمائی آگ
جل گیا سب، کہیں دھواں نہ ہُوا
اُس نے کچھ اِس طرح لگائی آگ
کر گئی راکھ ایک لمحے میں
عمر بھر کی مِری کمائی آگ
اُٹھتا رہتا ہے یہ دھواں ہر سُو
کرتی رہتی ہے خود نمائی آگ
میں بھی پانی سے توڑ دوں رشتہ
چھوڑ دے تُو بھی کج ادائی آگ
اِک قیامت سے کم نہیں راغبؔ
دل میں اب تک وہ ابتدائی آگ
افتخار راغبؔ
دوحہ ، قطر
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸