درونِ چشم ہے روشن کوئی جھلک اُس کی
کہ محوِ رقص نگاہوں میں ہے چمک اُس کی
یہ بات آئی سمجھ میں نہ آج تک اُس کی
غزل درخت سے آتی ہے کیوں مہک اُس کی
وہ عطر بیز رہے شاخِ یاسمن کی طرح
لبھائے دل کو ہمیشہ چمک دمک اُس کی
جو درد تیری محبت کا دل میں اٹھتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ ہردم رہے کسک اُس کی
یہی ہے سچ کہ نہ چھوڑے گی میرا ساتھ کبھی
یہ آرزو کہ نظر آئے اک جھلک اُس کی
مِرے خلاف جو سازش رچی تھی یاروں نے
ہے شکر لگ گئی اغیار کو بھنک اُس کی
ذرا سی بات ہو جب باعثِ حسد راغبؔ
سناؤں کس کو میں باتیں لہک لہک اُس کی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸