یکجا تھے سارے فہم و فراست میں پست لوگ
قبلہ بنے ہوئے تھے قبیلہ پرست لوگ
لگتا تھا چھو گیا تھا اُنھیں مستیوں کا جنّ
اِس طرح اپنے آپ میں رہتے تھے مست لوگ
کیا خوب ہر طرف ہے ترقّی کی دھوم دھام
کشکول تھامے ملک ہے کاسہ بدست لوگ
سر پر ہے سائباں کی طرح دھوپ کا شجر
آرام کر رہے ہیں ابھی فاقہ مست لوگ
یوں ہی رہیں گے حرص و ہوَس کے اگر اسیر
کھائیں گے اپنے آپ سے یوں ہی شکست لوگ
جولائی ۲۰۱۳ئ غیر طرحی
*********************