* اُس شوخیِ گفتار پر آتا ہے بہت پیار *
اُس شوخیِ گفتار پر آتا ہے بہت پیار
جب پیار سے کہتے ہیں وہ شیطان کہیں کا
یہ وصل کی رُت ہے کہ جدائی کا ہے موسم
یہ گلشنِ دل ہے کہ بیابان کہیں کا
کر دے نہ اُسے غرق کوئی ندّی کہیں کی
خود کو جو سمجھ بیٹھا ہے بھگوان کہیں کا
اک حرف بھی تحریف زدہ ہو تو دکھائے
لے آئے اُٹھا کر کوئی قرآن کہیں کا
محبوب نگر ہو کہ غزل گانْو ہو راغبؔ
دستورِ محبّت نہیں آسان کہیں کا
****************** |