* نہ جانے کب سے لپٹا ہوں میں اس حیرت ک *
غزل
کے اشرف
نہ جانے کب سے لپٹا ہوں میں اس حیرت کے بادل میں
قیامت دیکھتا ہوں میں تری آنکھوں کے کاجل میں
زمانے بھر سے لڑنے کا کہاں سے عزم لائی ہو
دکھا ئی کیا دیا ہے تم کو آخر ایسے پاگل میں
ہزاروں بجلیاں خوابیدہ ہیں ابرو کی حرکت میں
چھپا رکھے ہیں ہنگامے کروڑوں اپنے آنچل میں
بدل سکتی ہو کیا اطوار تم اس وخشی دنیا کے
بھرے ہیں زہرکتنے ہی یہاں ہر ایک چھاگل میں
کہیں ڈیرہ ہے شیطاں کا کہیں بستی خدا کی ہے
چلو ہم دور چلتے ہیں کہیں حیرت کے بادل میں
*************
|