غزل
کے اشرف
کرنا گلہ کسی سے کیا اپنی زندگی کا
غربت میں پیارے کوئی ہوتا نہیں کسی کا
ہمت سے کام لینا فطرت کا ہے تقاضہ
کوئی اُٹھائے کیوں کر احسان آدمی کا
جنت پہ حق ہے اُن کا ، کہتے نہیں کسی کی
خود اُن سے ہی سنا ہے، دعویٰ یہ شیخ جی کا
میں نے کہا محبت اُس نے کہا حماقت
انجام کیا یہی ہے دنیا میں عاشقی کا؟
فریاد گر کرے دل سن غور سے اُسے تُو
اُس کو ملے توجہ یہ حق ہے ملتجی کا
تجھ سے ملا تھا جو کچھ لوٹا دیا ہے وہ سب
یہ شعر تو ثمر ہے میری بے خوابگی کا
روپوش ہیں کہیں پر مدت سے خواجہ صاحب
احساس ہو گیا ہے اُن کو بے چارگی کا
**********