* چلتی رہتی ہے زمیں بھی آسماں رُکتا *
غزل
کے اشرف
چلتی رہتی ہے زمیں بھی آسماں رُکتا نہیں
لوگ آتے جاتے ہیں یہ کارواں رُکتا نہیں
ہے بہت ہی خوبصورت واہموں کا یہ جہاں
ہم ہی گر جاتے ہیں تھک کر یہ جہاں رُکتا نہیں
اس سفر میں ہیں پڑاؤ پر کوئی منزل نہیں
رُک بھی جائیں گر مکیں تو یہ مکاں رُکتا نہیں
فکر کی دنیا ہے پرتو عالم امکان کا
خواب میں بھی ارتباط ِ این و آں رُکتا نہیں
آدمی کچھ بھی نہیں اِس کائناتی کھیل میں
وہ مرے یا کہ جئے اِس سے جہاں رُکتا نہیں
*******
|