اس نے پیچھے بہت برائی کی
اب تو صورت نہیں صفائی کی
میرے کاندھوں پہ اس نے پاوں رکھے
جس کو خواہش تھی خود نمائی کی
اس کے چہرے کو جب کتاب لکھا
اس نے بھی رسم ِ رونمائی کی
میری آمد پہ روپڑا وہ شخص
اور تقسیم پھر مٹھائی کی
کیارگوں میں کسی کی خون نہیں
کس کو حاجت ہے روشنائی کی
جس نے ظلمت کا سینہ چھیر دیا
ہے فراست دیا سلائی کی
میں نے بھی ہاتھ اپنا کھینچ لیا
اس نے بھی زور آزمائی کی
خود گرفتاریاں بھی دیتے ہو
اور تمنا بھی ہے رہائی کی
میں نے پھولوں سے داد مانگی تھی
خارزاروں نے پابجائی کی
آپ اوروں پہ مت ہنسو مہتاب
یہ بھی صورت ہے جگ ہنسائی کی
مہتاب قدر
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸