آیا نہیں چمن میں بہاروں کا قافلہ
مدت سے منتظر ہے نگاہوں کا قافلہ
ہے فرشِ آسما ں پہ صدارت جو چاندکی
پاتاہے فیضِ نور ستاروں کا قافلہ
جولوگ اپنے یارسے ہیں دور رہ گئے
ان کو بہت ستاتا ہے یادوں کا قافلہ
مشکل سے لوگ کرتے ہیں برداشت یہ عذاب
تعبیر سے ہو دور جو خوابوں کا قافلہ
مغرور ہو بھی جاتے ہیں اس کے اثر سے لوگ
کھوتا ہے اعتدال خطابوں کا قافلہ
قدرت کے ہر عمل میں ہے پوشیدہ مصلحت
ہے گل کی پاسبانی کو خاروں کا قافلہ
اچھے بُرے کا فرق بھی خوشترؔ ہے مٹ گیا
ہے آگہی سے دور کتابوں کا قافلہ
****************