مسلسل غزل
ایک خط آج سرِ شام کسی کا آیا
دل بیتاب کی خاطر وہ تسلی لایا
میں نے ارمانوں کی بنیاد بنایا اسکو
گلشنِ شوق کو بھی جس سے شگفتہ پایا
جلد ہی اس سے ملاقات کی ٹھانی میں نے
تحفہ کچھ دینے کو بازار سے جاکر لایا
میری امّی کو کسی طرح وہ خط ہاتھ لگا
میری آنکھوں میں اندھیراہی ساپل میں چھایا
فیصلہ ان کا نہیں بدلا میری منت پر
سن کے یہ واقعہ ابّو کو بھی غصہ آیا
سامنے میرے جلا یا گیا محبوب کا خط
آشیاں جلنے کا منظر بھی سمجھ میں آیا
اپنی ناکام محبت کا تو لکھ اے خوشترؔ
مرثیہ لکھنے کا اک موقع تجھے ہاتھ آیا
*********************