اپنا یارِ غمگسار آج آئے گا
جیسے جانِ انتظار آج آئے گا
میں بچھادوں اپنی آنکھیں راہ میں
مجھ سے ملنے شہر یار آج آئے گا
طالبانِ جلوہ سے کہہ دیجئے
میہمانِ مشکبار آج آئے گا
ہے خبر کہ مملکت میں حسن کی
کوئی یارِ طرحدار آج آئے گا
خیر مقدم خود کریں پیرِ مغاں
اونچے قدکا دیندار آج آئے گا
ہوگا تسلیم و رضا کا امتحاں
ایک قاتل وضع دار آج آئے گا
جس کا خوشترؔ منتظر مدت سے تھا
لیکے دامن میں بہار آج آئے گا
*******************