اپنے بھی رہے کچھ پہلے سے حالات نہیں
اندازِ وفا میں ان کے بھی وہ بات نہیں
تسلیم کی خو میں آنے دیا کچھ فرق کہاں
اپنوں سے بھی پہنچے ہیں کیا کیا صدمات نہیں
اشعار کہے جو تیرے لیے ،سب بھولاہوں
اب یاد بھی مجھکو آتے وہ نغمات نہیں
میں آہِ دلِ ناکام لیے کیا جاؤں بھی
جو مجرم الفت پیش کرے، سوغات نہیں
کچھ قدر ہنر کی یا تو نہیں وہ کرتا ہے
انعام کے قابل یا میری خدمات نہیں
ہے گلشن کے ہرپتّے پر جو گرد جمی
شاید یہاں برسی ہے اب کے برسات نہیں
خوشتر ؔہی ترا اے دوست فقط سودائی ہے
وہ تجھکو بھولے ؟ہر گزایسی بات نہیں
*****************