اس نے وعدہ کیا پھر آنے کا
اک ستم اور مجھ پہ ڈھانے کا
میرے دشمن سے مجھکو اٹھوادو
یوں نہیں میں یہاں سے جانے کا
میرے خونِ جگر سے ہے رنگیں
حسن ہے جو ترے فسانے کا
تیرے درپر رہوں گداکی طرح
اپنی عزت نہیں گنوانے کا
رشتہ باندھا وفا کا تم سے جب
نقش دل سے نہیں مٹانے کا
اب ارادہ ہے برسرِ محفل
جرم تیرا تجھے بتانے کا
روٹھ کر جو گیا ہو اے خوشترؔ
میں نہیں اس کو پھر منانے کا
******************