غزل
ڈاکٹر منصور خوشتر
آپ جب مسکرائے ،غزل ہوگئی
کچھ قریب اور آئے غزل ہوگئی
توڑکر اپنے گلشن سے تازہ گلاب
میری خاطر وہ لائے غزل ہوگئی
لب پہ فریاد تو دل میں سو اضطراب
اشک آنکھوں میں آئے غزل ہوگئی
وائے محرومیاں، ہائے مجبوریاں
درد دل میں دبائے غزل ہوگئی
میں نے پوچھا محبت انہیں مجھ سے ہے؟
چپ رہے، مسکرائے غزل ہوگئی
جب بھی انگڑائی توبہ شکن کوئی لے
ایک فتنہ اٹھائے غزل ہوگئی
دل میں خوشترؔ جو ارماں تھے سوئے ہوئے
خوبرو اک جگائے ،غزل ہوگئی
***********************