تھا جو اک کا فر مسلماں ہو گیا
پل میں ویرانہ گلستاں ہو گیا
چھپ کے پی تھی کل جہاں پہ شیخ نے
اس جگہ قائم خُمستاں ہوگیا
چارہ گرکی اب نہیں حاجت مجھے
درد ہی خود بڑھ کے درماں ہو گیا
مجھ پہ کوئی ہو گیا ہے مہرباں
قتل کا اب اپنے ساماں ہوگیا
ہے تغافل ہی کا تیرے فیض کچھ
رفتہ رفتہ میں غزل خواں ہوگیا
مجھ کو اس محفل میں جانا ہی نہ تھا
دل فدائے روے خوباں ہوگیا
بے وفا سے عشق کا انجام ہے
یہ جو خوشترؔ خونِ ارماں ہوگیا
*********************