بہار کہتے ہیں لیکن بہار ہے تو نہیں
ہوں بزم یار میں لیکن قرار ہے تو نہیں
حساب ہو مرا باقی تو وہ چکا بھی دے
وفا کسی پہ کچھ اپنی ادھار ہے تو نہیں
سنا ہے ساقی نے اس کو پلا ئی حسب طلب
کسی طرح سے بھی ظاہر خمار ہے تو نہیں
سمجھ میں آئے گی الفت کی بازی مشکل سے
تمہاری جیت سہی میری ہار ہے تو نہیں
صراحی ،میکدہ ،ساغر ،شراب،سب ہیں وہی
وہی ہے ساقی بھی ، وہ بادہ خوار ہے تو نہیں
تمہارے نام کی کھاتا تھا میں قسم لیکن
وہیں تمہارا کچھ اب اعتبار ہے تو نہیں
ترے بغیر بھی خوشترؔ ہے کا میاب بہت
خوشی کا تجھ پہ ہی کچھ انحصار ہے تو نہیں
**************