چل گیا محفل میں سکّہ آپ کا
ہر زباں پہ ذکر یوں تھا آپ کا
خوبی تیری غیر نے دیکھی ہے آج
معتقد کب سے ہے بندہ آپ کا
سامعیں سن کر غزل ہیں سوچتے
شعر ا چھے ہیں کہ چہرا آپ کا
کوئی بسمل ہے تو کوئی جاں بلب
کیا ستم ڈھاتا ہے جلوہ آپ کا
آپ ہی لوگوں کو اب بتلا یئے
مجھ سے کیسا کچھ ہے رشتہ آپ کا
خود کسی نے ہے بلایا گھر پہ اب
کیا مقدّر بھی ہے جاگا آپ کا
خوشترؔ اس کا کچھ بھروسہ بھی نہیں
ساتھ اک دن چھوڑ دے گا آپ کا
******************