بہت بارِ گراں یہ زندگی معلوم ہوتی ہے
کہ غم کا پیش خیمہ ہر خوشی معلوم ہوتی ہے
کسی سے سرگز شتِ غم بیاں کرتاہوں جب اپنی
کہانی وہ سراسر آپ کی معلوم ہوتی ہے
عذاب اپنے لیے اہلِ وفا اس کو سمجھتے ہیں
محبت بھی اگر اک بندگی معلوم ہوتی ہے
مٹایا ہے نئی تہذیب نے اچھے بُرے کا فرق ایسا
مسلّط روشنی پر تیرگی معلوم ہوتی ہے
ہے محرومی سی محرومی تو محبوری سی مجبوری
کہ ہر ساعت مصیبت میں گھِرِی معلوم ہوتی ہے
چلاہوں جس پہ اک مدت ،رہاہوں آشنا جس سے
وہ منزل ،رہ گذر اب اجنبی معلوم ہوتی ہے
کہاں جاؤ ں میں اے خوشتر ؔ،کہوں روداد بھی کس سے
کہ جس کو دیکھئے جاں پر بنی معلوم ہوتی ہے
********************