مجھے تم اپنی وفا کا تو آسرادے دو
نظر کو دید کا کچھ میری حوصلہ دے دو
شرابِ وصل کا تیری ہے اک سبو کا فی
یہ میں نے کب کہاتم سے کہ میکدہ دے دو
تمہارے فیض کا شہرہ ہے چارسو ساقی
کھڑا ہوں درپہ تمہارے ،بُرا بھلا دے دو
متاعِ حسن کو کب تک چھپاکے رکھو گے
کہ قدردانوں کو یہ جنسِ بے بہادے دو
سنا ہے ملتی ہے تعبیر پوچھ کرتم سے
تو میرے خوابِ پریشاں کا تم پتہ دے دو
خمار جس کا نہیں اترے عمر بھر ساقی
شراب شوق میں تم میرے وہ نشہ دے دو
تم اپنے چاہنے والوں میں صرف خوشترؔ کو
ملا نہ ہو جو کسی کو وہ مرتبہ دے دو
********************