غزل
ڈاکٹر منصور خوشتر
خود کو جس میں کھودیا میں نے وہ لمحہ اور تھا
قتل کا ڈھنگ بھی جدا ،قاتل دل آرا اور تھا
اس نے دشمن کو بھی دی میرے برابر کی جگہ
مانا ربطِ غیر بھی، میرا تو رشتہ اور تھا
دن محبت کے کسی صورت گزرتے ہی رہے
کچھ اسے بھی تھی شکایت ،میرا شکوہ اور تھا
بدلا بدلا مجھ سے تھا اس کا کچھ اندازِ کلام
کچھ الگ طرز بیاں تھا ،سخت لہجہ اور تھا
زندگی بھر جو رہا بر خود غلط ہی کا شکار
سامنا کرتا وہ کیسے میرا رتبہ اور تھا
پاتا ہر کوئی یہاںاپنے کئے ہی کا صلہ
اس کا انداز دگر ،میرا طریقہ اور تھا
اُن کو بے خود بھی کیا خوشترؔ کے جن اشعار نے
رنگیں غزل وہ او ر تھی ،وہ شیر یں نغمہ اور تھا
***********************
أ