* اشکوں میں خون ملا کے بڑا کام کر گئی *
اشکوں میں خون ملا کے بڑا کام کر گئی
آنکھوں میں تیری یاد نیا رنگ بھر گئی
گھر واپسی پہ اس کی ہنسی میں نہا گیا
دن بھر کی جو تھکن تھی وہ پل میں اتر گئی
سمجھوتے کر رہی ہے اجالوں سے آج کل
دیکھو سیاہ رات چراغوں سے ڈر گئی
پہنچے تھے ہم بھی دیکھنے دعوے بہار کے
زخموں کی کھیتیاں تھیں جہاں تک نظر گئی
نایاب ہو گئی ہے یہاں پیار کی مٹھاس
ہر اِک زبان زہر سے نفرت کے بھر گئی
|