* یہاں خوابوں کی ارزانی بہت ہے *
یہاں خوابوں کی ارزانی بہت ہے
اس آبادی میں ویرانی بہت ہے
سروں پر خواب اوڑھے جا رہے ہیں
یہاں سورج کی تابانی بہت ہے
مبارک تم کو خوشیوں کے خزانے
مجھے تو غم کی سلطانی بہت ہے
ہوس دریا کی ہو گی اہلِ زر کو
ہمیں دو گھونٹ ہی پانی بہت ہے
قصیدے پڑھنے والوں میں نہیں ہوں
مجھے تو چاک دامانی بہت ہے
پرندے زخم کھا کر اُڑ رہے ہیں
ہواؤں کو پشیمانی بہت ہے
میں سچے لفظ ہی لکھتا ہوں منظر
میری باتوں میں نادانی بہت ہے
|