صدیاں بیت گئی ہیں
جب سے میں نے تم کو سوچا ہے
میں میں‘ میں کب رہا ہے
گنگا جل کا ہر قطرہ
گیتا کے بولوں
گرنتھ کے شبدوں
فرید کے شلوکوں
پھول کے گالوں کو چھوتی شبنم
ساگر کے اندر
سیپ کی بند مٹھی میں موتی
رتجگوں کی سوچوں
دعا کو اٹھتے ہاتھوں
ساون رتوں کی ہڑ برساتی آنکھوں
آگ میں ڈوبی سانسوں کا
حاصل تم ہو
رمز مجھ پر کھل گئی ہے
میرے سوچ کی
ساری شکتی کا دم خم تم ہو
جب سے میں نے تم کو سوچا ہے
میں میں‘ میں کب ہے
میں کو سفر کیے
صدیاں بیت گئی ہیں
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸