اس سے پہلے
مقصود حسنی
اس سے پہلے
کہ عمر کا تارا ٹوٹے
مرے جیون کا
ہر جلتا بجھتا پل
مجھ کو واپس کر دو
جو دن خوشییوں میں گزرا
تقدیر نہیں
عشق کی تپسیا کا اترن تھا
مرے بولوں کی تڑپت
مرے گیتوں کی پیڑا
مرزے کی کوئی ہیک نہیں
مرے اشکوں کا شرینتر تھا
کے طعنے مینے اپنوں
سن سن کر
غیروں کے بھی کان پکے
میں اس کو لوکن کی
کیوں کالی ریتا سمجھوں
یہ تو سچ کا پریوجن تھا
اس سے پہلے
کہ عمر کا تارا ٹوٹے
مرے جیون کا
ہر جلتا بجھتا پل
مجھ کو واپس کر دو
ہر ان ہونی کا پرورتن کھولو
اس سے پہلے
کہ عمر کا تارا ٹوٹے
مرے جیون کا
ہر جلتا بجھتا پل
مجھ کو واپس کر دو
***************