ذات کے قیدی
مقصود حسنی
قصور تو خیر دونوں کا تھا
اس نے گالیاں بکیں
اس نے خنجر چلایا
سزا دونوں کو ملی
وہ جان سے گیا
یہ جہان سے گیا
اس کے بچے یتیم ہوئے
اس کے بچے گلیاں رولے
اس کی ماں بینائی سے گئی
اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں
اس کا باپ کچری چڑھا
اس کا باپ بستر لگا
دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے
گھر گھر کی دہلیز چڑھے
بے کسی کی تصویر بنے
بے توقیر ہوئے
ضبط کا فقدان
بربادی کی انتہا بنا
سماج کے سکون پر پتھر لگا
قصور تو خیر دونوں کا تھا
جیو اور جینے دو کے اصول پر
جی سکتے تھے
اپنے لیے جینا کیا جینا
دھرتی کا ہر ذرہ
تزئین کی آشا ر کھتا ہے
ذات کے قیدی
مردوں سے بدتر
سسی فس کا جینا جیتے ہیں
******************