تِرے کوچے ہر بہانے مجھے دِن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
تجھے کِس نے روک رکھا، تیرے جی میں کیا یہ آئی
کہ گیا تو بھول ظالم، اِدھر التفات کرنا
ہُوئی تنگ اس کی بازی، مِری چال سے تو رُخ پھیر
وہ یہ ہمدموں سے بولا، کوئی اِس سے مات کرنا
یہ زمانہ وہ ہے جس میں، ہیں بزرگ و خورد جتنے
انہیں فرض ہو گیا ہے گلئہِ حیات کرنا
جو سفر میں ساتھ ہوں ہم، تو رہے یہ ہم پہ قَدغن
کہ نہ مُنہ کو اپنے ہر گز طرفِ قنات کرنا
یہ دُعائے مصحفیؔ ہے، جو اَجل بھی اس کو آوے
شبِ وصل کو تو یارب، نہ شبِ وفات کرنا