* جو دیکھا لالہ و گل کو گرفتارِ خزاں *
جو دیکھا لالہ و گل کو گرفتارِ خزاں میں نے
کئے شاداب اپنے خونِ دل سے گلستاں میں نے
نہ پوچھو بجلیوںکی یورشوں سے دل پہ کیا گزری
بنایاتھا بڑی ہی آرزو سے آشیاں میں نے
مرے طرزِ بیاں پر رو پڑے اہلِ خرد یارو
جنوں انگیز لَے میں جب سنائی داستاں میں نے
مجھے پامال اے صبحِ بہارِ ناز مت کرنا
گزاری ہے بڑی مشکل سے شب ہائے خزاںمیں نے
بہاروں میں مجھے یاد آئی اُس جانِ بہاراں کی
نہ پائی جب چمن میں نکہتِ زلفِ بتاں میںنے
جہاں کی الجھنوں میں رہ کے بھی فرطِ عقیدت سے
چھپا رکھی ہے اپنے دل میں یادِ رفتگاں میں نے
مرے دل کی اندھیری وادیاں بھی ہوگئیں روشن
کیا جب بھی خیالِ جلوۂ حسنِ بتاں میں نے
مرے گھر کے در و دیوار کی قسمت چمک اٹھی
کیا مشتاقؔ اُن کو اپنے گھر جب میہماں میں نے
******************* |