* بصد اخلاص جو ملتا نہیں ہے *
بصد اخلاص جو ملتا نہیں ہے
مری نظروں میں وہ اچھا نہیں ہے
میں ایسے بند کمرے کا ہوں قیدی
کہ جس کا کوئی دروازہ نہیں ہے
تعلق ہے مرا دار و رسن سے
مجھے خوفِ غمِ دنیا نہیں ہے
سلوکِ دوستاں اس دورِ نو میں
مہذب اور شائستہ نہیں ہے
بُرے دن میں جو کام آئے کسی کے
یہاں اک شخص بھی ایسا نہیں ہے
مجھے جانا ہے اُس جانب سفر پر
جدھر بس دھوپ ہے سایہ نہیں ہے
غزل مشتاقؔ ہو رنگین کیسے
شگفتہ روح کا غنچہ نہیں ہے
***************** |